کنارہ ہوتے ہوۓ منجھدار میں رہنا
بھلا ہے لگتا فریبِ دیار میں رہنا
ہے کیسے کھِل اُٹھتا زِکرِ یار پر چہرا
اِسے تو آتا نہیں اِختیار میں رہنا
ابھی تو چاک نہیں پردۂِ فلک بھی کیا
نہیں حِصارِ جِہاتِ چہار میں رہنا
نہ خوشبو بَندشِ گُل کے ہے واسطے بنی گر
یُوں شوق کو بھی نہیں ہے قرار میں رہنا
قریب ہے نو عروسانِ گلستاں گلُ چیں
ہے آساں تو نہیں فصلِ بہار میں رہنا
ہے چمنِ ابراہیؑم کی حیاتِ نو پھر
ہے قطرہِ شبنم خارِ زار میں رہنا
کہ شعلے کے جیسے آرزو بھڑکنے کی ہے
ہے جسدِ خاکی کے کب تک حِصار میں رہنا
اگر پسند اُسے ہجراں ہے زیادہ مِہؔر
قبول کرنا سدا اِنتظار میں رہنا
-------٭٭٭-------

0
114