التجا ایک خطا ہے کہ خدا خیر کرے
یہاں ہر شخص خدا ہے کہ خدا خیر کرے
ہوسِ دولتِ دنیا میں مگن ہے دنیا
اک سزا روزِ جزا ہے کہ خدا خیر کرے
شوقِ تکمیلِ تمنا میں بہت تھک گیا ہوں
صرف اتنی سی دعا ہے کہ خدا خیر کرے
کوچۂِ ہجرِ فروکش ہی رہوں گا کب تک
سایۂِ مثلِ بلا ہے کہ خدا خیر کرے
بارہا بزمِ عدو میں انہیں دیکھا ہے میں نے
کچھ عجب طرزِ وفا ہے کہ خدا خیر کرے
کل وہ شاید کسی کا نام لیے تھے اور آج
ہاتھوں میں رنگِ حنا ہے کہ خدا خیر کرے
کونسا قافلہ ہے چل دیا ہوں جس کے ساتھ
اور ہی بانگِ درا ہے کہ خدا خیر کرے
اس شبِ تیرۂِ خاموش میں ہے کیسا شور
سینے میں ایک غزا ہے کہ خدا خیر کرے
عالمِ فانی میں یاں ایک غموں کا جھرمٹ
غمِ جاناں کے سوا ہے کہ خدا خیر کرے
بے سبب کچھ تو کھٹکتا ہے دلِ ناداں میں
زندگی جیسے سزا ہے کہ خدا خیر کرے
طعن و تشنیع عبث کرتا ہے دل والوں کو زیبؔ
یہ زمانے کی ادا ہے کہ خدا خیر کرے

0
114