نیک دل ایک لڑکی
سسکتی تڑپتی ہوئی کہہ پڑی
آرزو اور خواہش بنی ہی نہیں میرے خاطر
اور جہاں میں خدا نے بہت رکھی رعنائیاں ہیں
مرے واسطے محض لگتا ہے مجھ کو کہ تنہائیاں ہیں
گھر میں سب ہے
مرا ایک رب ہے
جس سے روتی ہوئی میں سکوں ,چین راحت سے
بس مانگتی ہوں دعا
سن مری التجا
اے مہرباں خدا
میں نے اک پھول چاہا ہے
پر وہ مجھے کوئی لینے پہ اصرار کرتے نہیں
پھول وہ ایسا ہے جس کی تعظیم سب پہ عیاں
اس کی خوشبو میرے گھر میں سب کو پسند ہے مگر
وہ مجھے کوئی لینے پہ اقرار کرتے نہیں
کیوں مجھے ہی بھلا سب کے سب روکتے ہیں
کیا مرا دل نہیں
کوئی فیلنگ نہیں
میں تو سب کی کہی بات سنتی بھی ہوں
حکم اپنے بڑوں کا کبھی ٹالتی ہی نہیں
مجھے یہ پتا ہے
ازل سے یہ چھوٹوں پہ ہوتا رہا ہے
جو ہو فیصلہ ماننا ہی پڑے گا مجھے ,
ضد کروں بھی تو کوئی
مری ضد کو پوری کرے ایسا ممکن نہیں
اپنے ابو , بھائی , بہن کے لیے
اپنی ماں کے لیے باغ میں جاؤں گی
اور اس پھول کو الودع کہہ کے لوٹ آؤں گی
اتنا کہتی ہوئی اس کے لب ایسے ساکت ہوئے
پھر ہلے ہی نہیں خامشی اس پہ تاری رہی
میں نے دیکھا کہ آنکھیں بیاں کر رہی ہے
ابھی داستاں
ڈبڈبائی ہوئی اس کی آنکھوں سے اک بوند بھی آنسو
گرتے نہیں اور رکتے نہیں
اشک گویا ہوئے مجھے سے کہنے لگے
اس کی آنکھوں سے میں گر گیا تو سمجھنا
کہ لڑکی سنبھل جائے گی
اور اگر مجھ کو مرنے سے اس نے بچائے رکھا
تو وہ مر جائے گی
لال جوڑا بھی اس کے لیے کفن ہوگا
دیکھتا میں رہا اس کی آنکھیں
ان میں جیسے کوئی قحط سالی ہوئی
تربہ تر اس کی آنکھیں بہت خشک ہوئی
اشک پر موت آئی نہیں
پر ایک پالا ہوا کرب قسمت لیے
نیک دل ایک لڑکی
اپنے ابو , بھائی بہن کے لیے
اپنی ماں کے لیے سانس لیتی رہے گی
شہباز خالد کلکتوی

0
7