نفرتیں سب زمانے کی سہتا رہا
درسِ الفت ہی پھر بھی میں دیتا رہا
----------
ہم کو شیطان کھینچے گا اپنی طرف
بچ کے چلنا یہاں سب سے کہتا رہا
----------
جانتا تھا کہ منزل بہت دور ہے
پھر بھی جانب اسی کی میں چلتا رہا
--------------یا
پھر بھی پیہم اُسی سمت چلتا رہا
----------
مجھ پہ میرے خدا کا کرم تھا بہت
کام بگڑا نہیں میرا بنتا رہا
-------------
بے حسی ہر جگہ پر ہے چھائی ہوئی
خونِ ناحق زمانے میں بہتا رہا
---------
مشکلیں تھیں بہت پھر بھی ہارا نہیں
سوئے منزل ہمیشہ ہی بڑھتا رہا
-----------یا
راہ مشکل تھی لیکن تھی سچی لگن
اپنی منزل کی جانب میں بڑھتا رہا
---------
جو دیا چاہتوں کا جلاتے رہے
بعد تیرے بھی جانے کے جلتا رہا
-----------
داغ ارشد کے دامن پہ جو بھی لگے
خون سے اُن کو اپنے وہ دھوتا رہا
--------

0
295