مقدر میں ہی گر اپنے زیاں ہے
بہاروں میں بھی پھر اپنی خزاں ہے
اجل بھی مہرباں ہم پر نہیں جو
کہاں پھر وہ نسیمے بوستاں ہے
ہے کتنا تلخ دنیا کا یہ لہجہ
محبت کا کہاں اس میں بیاں ہے
شکایت کی کوئی طاقت ہے کس کو
کلی کی بھی چٹک میں اک فغاں ہے
سجایا ہے گلوں نے گلستان سب
چھپا اس کا کہاں پر باغباں ہے
ملے دنیا میں اک مجھ سا تجھے بھی
صنف ایسی مگر جگ میں گراں ہے
گھڑی بھر کی ہے لذت اس میں لیکن
ہوس پھر بھی جاں میں سب کے جواں ہے
سنا دیں تمہیں ہم غم جس میں شاہد
کہانی وہ وفا کی پر کہاں ہے

0
77