بھول گئے ہم درد پرانے آنسو پینا سیکھ لیا
اب تو اپنی دنیا میں ہی ہم نے جینا سیکھ لیا
چارہ گری اس دل کی جاناں کب کی ہم تو چھوڑ چکے
سچ تو یہ ہے زخمی زخمی ہم نے جینا سیکھ لیا
پیاس لگی تو پینے کو اک بوند نہ پائی لوگوں سے
رکھے تھے پھر محفل میں کہاں جام و مینا سیکھ لیا
درد پرانے راتوں کو بھی جب گھات لگائے بیٹھے تھے
موتی کیسے بنتا ہے اس دل کا پسینہ سیکھ لیا
تونے جگایا دل کو میرے رنگوں کی تاریکی سے
اہلِ ہوس سے بچنا دل کا چشمِ بینا سیکھ لیا
درد مداوا بنتا ہے جب آہ ہنسی میں ڈھلتی ہے
جب یہ جانا تب ہونٹوں کا خود ہی سینا سیکھ لیا

0
6