زیر اپنا تُو اعتبار نہ کر
غمِ الفت کو شرمسار نہ کر
ہجر میں احتیاط کر لے ذرا
مشتعل ہو کہ بھی شرار نہ کر
مسکراتے گزارنا ہیں یہ دن
زندگی اب یہ بے بہار نہ کر
پاک ہو سینہ بغض سے تو اچھا
نفس کو مار لے، عیار نہ کر
سحر انگیزی ہو صفت کی مگر
بھوت شہرت کا وہ سوار نہ کر
امتحاں عشق کا ضرور ہو یہاں
بیوفا سے پر کبھی پیار نہ کر
کام ناصؔر بھلے ہمیشہ ہی ہو
خود کو ہرگز دہر میں خوار نہ کر

0
61