دشمنوں کو بھی گلے اپنے لگائے رکھنا
پرچمِ امن زمانے میں اٹھائے رکھنا
لاکھ دکھ درد زمانہ تجھے دے گا لیکن
دل میں الفت کے چراغوں کو جلائے رکھنا
مجھ کو امید ہے احسنؔ وہ ضرور آئے گا
اسی امید پہ آنچل کو بچھائے رکھنا
ہو جہاں زخم وہیں اپنے لگاتے ہیں نمک
اپنے آلام کو اپنوں سے چھپائے رکھنا
آج کے دور میں جینے کی اگر ضد ہے تمہیں
اپنے چہرے پہ تبسم کو سجائے رکھنا
اپنے ماں باپ کو ناراض نہ کرنا احسنؔ
بوجھ ماں باپ کا کاندھے پہ اٹھائے رکھنا

0
14