کٹھن تھی راہ بہت یہ تو اک بہانہ تھا
پہنچ گئے ہیں وہ آخر جنھوں نے آنا تھا
جو آ گئے ہیں تو وہ کشتیاں جلا آئے
انہوں نے لوٹ کے واپس کہاں پہ جانا تھا
خرد سمجھ نہیں پائی ہے عاشقوں کا مزاج
کہ عشق یوں بھی جنوں ہی کا شاخسانہ تھا
اگرچہ مجھ کو عداوت نہیں زمانے سے
ہمیشہ میرا مخالف مگر زمانہ تھا
تلاشنے جسے نکلے تھے لوگ دنیا میں
وہ میرے گھر میں سبھی علم کا خزانہ تھا
جُڑے رہے ہیں اگر دل ہمارے ساتھ اس کے
تو اس نے قُرب کا وعدہ بھی کیوں بُھلانا تھا
وفا جو کی ہے مسلسل تو بے وفائی کا
یونہی کسی نے یہ الزام کیوں لگانا تھا
اُسے میں کیا کہوں طارق ہو سوچ ہی جس کی
جلا کے گھر مرا اپنا جسے بچانا تھا

0
34