گئی گزری باتوں میں کیا دل لگانا
نئے دور کو بھی چلو آج چن لیں
یہ برقی پیامی فضاؤں میں اڑ کر
کہانی غضب کی سناتے ہیں سن لیں
کہیں پر اُڑی ہے خبر رونقوں کی
کہیں ناگہانی سی باتیں سنی ہیں
کہیں آفتابی نظر کے تھے منظر
کہیں جھلملاتی سی راتیں سنی ہیں
کہاں چاند پریاں کہاں الف لیلیٰ
کہاں کہکشاں پر کمندیں پڑی ہیں
کہاں بے سلیقہ کہانی کی قسمت
کہاں چاندنی کی بھی لڑیاں جڑی ہیں
سمندر بھرے ہیں کتابوں کے کیسے
جواہر ہزاروں میسر ہیں ہر دم
خلاؤں میں گونجی صدا آدمی کی
کہ حاضر فرشتے بھی دیکھے ہیں پیہم
کہیں آسماں تک حکومت بشر کی
کہیں ایک جوہر کے ہاتھوں تباہی
کہیں دیو ہیکل پہاڑوں میں رستے
کہیں گھر کے اندر بھی گہری سی کھائی
کہیں دل دھڑکتا ہوا دے دکھائی
کہیں پاس بھی تو نظر کچھ نہ آئے
عجب چیز ہے یہ جہاں بھر کی رونق
شجر ہی شجر ہیں ثمر کچھ نہ آئے
ہمیں تم وہیں پر میاں چھوڑ آؤ
جہاں سے چلے تھے وہاں چھوڑ آؤ

10