ستمگری کا تماشا لگائے رکھتے ہو
مجھے کیوں اپنا نشانہ بنائے رکھتے ہو
ہے اور کام بھی تیرا کہ جو تو کرتا ہو
یا دل پہ تاک مرے ہی لگائے رکھتے ہو
کہ ایک لفظ محبت جہاں نہ ملتا ہو
ہے کیسا گیت جو مجھ کو سنائے رکھتے ہو
دلوں کو درد سے تم آشنا جو کرتے ہو
ادا سے اپنی ہی خنجر چلائے رکھتے ہو
کبھی تو قرب کی باتیں کبھی جدائی کی
عجب سا شوق ہے ہلچل مچائے رکھتے ہو
کبھی تو بیٹھو سکوں سے مری بھی سن لو کچھ
کیوں آسمان کو سر پر اٹھائے رکھتے ہو
ملے گا تم کو صلہ مجھکو یوں ستانے کا
ادا سے اپنی جو مجھکو جلائے رکھتے ہو
مری یہ سوزِ تمنا کی آگ بجھ جائے
عجیب آس جو مجھ سے لگائے رکھتے ہو
کبھی وہ وقت تھا فرصت نہ تھی محبت سے
ابھی یہ وقت ہے سب کچھ بھلائے رکھتے ہو
عیاں ہے رخ سے ترے داستاں زمانوں کی
جو نقش ہم نے بنائے چھپائے رکھتے ہو
فقط جو ہم نے بنے خواب وصل کے یارا
ہماری آس کو تم کیوں مٹائے رکھتے ہو
تجھے ہمایوں ملے گی نہ کوئی منزل پھر
کیوں ایسے خواب سہانے سجائے رکھتے ہو
ہمایوں

0
19