اے زمیں! تجھ پر نزولِ آسماں ہونے کو ہے |
یعنی شہکارِ خدا دیکھو عیاں ہونے کو ہے |
نیرِ برجِ امامت آ رہا ہے سوئے دہر |
جس کے دم سے نور سارا یہ جہاں ہونے کو ہے |
آ گئے ہیں اس جہاں میں ہاں شہِ گلگوں قبا |
فیضِ نورِ مصطفیٰ سب کو رساں ہونے کو ہے |
پُر مسرت ہیں علی مولا حسن عذرا بتول |
ہاں دلِ خیرُ البشر بھی شادماں ہونے کو ہے |
باغِ عصمت میں کھِلی تازہ کَلی تطہیر کی |
اُس کی خوشبو سے معطر دو جہاں ہونے کو ہے |
خوابِ ابراہیم کی تعبیر بن کر آئے ہیں |
اب مکمل مقصدِ پیغمبراں ہونے کو ہے |
وہ جسے پینے کی خاطر گردشوں میں رند تھے |
ہاں وہی جامِ شہادت اب رواں ہونے کو ہے |
شاهِ تسلیم و رضا وہ ہیں امامِ عاشقاں |
سرخوشانِ عشق کی محفل جواں ہونے کو ہے |
کُھلنے والی قسمتیں ہیں سیکڑوں فطرس کی اب |
رونما، جانِ مسیحا اب یہاں ہونے کو ہے |
پہنچے ہیں کربل میں *جَآءَ الْحَق* کا مظہر بن کے وہ |
اب ہزیدی نام بے نام و نشاں ہونے کو ہے |
اب اُڑیگی دھجِّیاں ہر کفر اور طاغوت کی |
ہر دلِ کافر تو دیکھو اب دھواں ہونے کو ہے |
ہے *اثر* ادنیٰ سا نوکر بس حسینِ پاک کا |
اُس کی بخشش اس جہاں میں اور وہاں ہونے کو ہے |
معلومات