زندگی کا نہ ہے زمانے کا
بس گلہ ہے ترا نہ آنے کا
ہم کہیں کے نہیں رہے دیکھو
یہ نتیجہ ہے دل لگانے کا
تو نے چہرہ بدلنا سیکھا ہے
تو بھی اب ہو گیا زمانے کا
دل کی ویرانیوں کو دیکھو تو
کچھ رہا ہی نہیں بسانے کا
ہم سے پوچھو وصال کی قیمت
کتنا مہنگا تھا دور جانے کا
ہم کو فرصت کہاں تھی خوابوں سے
کب ہوا شوق کچھ کمانے کا
اب نہ وہ دل رہا، نہ وہ جذبے
وقت آیا ہے ہار جانے کا
یوں ہی رستے بدلتے رہتے ہیں
ذکر کیا کارواں بسانے کا
کیا ملا تجھ کو غم کے حصے میں
سودا تھا کیا یوں مسکرانے کا
ہم نے وعدے تو کر لیے لیکن
یاد آیا نہیں نبھانے کا
کون سنجیدہ ہے وفاؤں میں
بس بہانہ ہے آزمانے کا
کتنے چہرے تھے آئینے جیسے
کس سے قصہ کہیں زمانے کا
اب خموشی میں بھی سکون نہیں
وقت آیا ہے چیخ جانے کا
درد لمحوں کا کھیل تھا یہ سب
قصہ تھا وقت کو مٹانے کا
بے سبب ہنسنا کتنا آساں دیکھ
فن بنا درد کو چھپانے کا
کیا کروں زندگی میں آیا ہے
بس یہی آرٹ دل دکھانے کا

45