جب کرم سخی فرماتے ہیں
وا بابِ عطا ہو جاتے ہیں
جو خیر سجن سے پاتے ہیں
وہ بازی لے کر جاتے ہیں
من موہن میرے جو ساجن ہیں
ہم گیت انہی کے گاتے ہیں
اس جان کو دھچکے لگتے ہیں
جب حجر فراق ستاتے ہیں
پھر نالے لبوں پر آتے ہیں
جو حالِ زار سناتے ہیں
اس یاد حرم کے آنے سے
سب کارِ دہر رک جاتے ہیں
سرکار سے فیض آفاقی پھر
خوشیوں کے بادل لاتے ہیں
وہ پیارے میرے جو آقا ہیں
ہر آن کرم فرماتے ہیں
جنہیں فکر ہماری حشر میں ہے
محمود سجن کہلاتے ہیں

9