اک تری یاد اور جہاں کے غم
پہلے فریاد پھر زباں کے غم
اب کہیں پہ سکوں نہیں ملتا
دل میں آئے ہیں یہ کہاں کے غم
میں نے چاہت بہار کی رکّھی
پر نصیبوں میں تھے خزاں کے غم
زندگی مختصر ہی پائی ہے
جس میں ہیں ارض و سماں کے غم
راحتیں بھی وہیں پہ ہیں میری
ہیں رُلائے مجھے جہاں کے غم
لوگ دیکھیں تو کہتے ہیں مجھ کو
تجھ پہ دِکھتے عیاں گماں کے غم
شاعری ایک زخم ہے گہرا
مار دیں گے مجھے بیاں کے غم
ایک دن تو خدا دکھائے گا
ختم ہوں گے سبھی میاؔں کے غم
میاؔں حمزہ

49