ایک دن اور ہے گزرا مری تنہائی کا |
وقت ملتا ہی نہیں تجھ سے شناسائی کا |
شعر کہہ لیتا ہوں جب یاد تری آتی ہے |
کچھ مجھے شوق تو ہے قافیہ پیمائی کا |
میں بیاں کر دوں کبھی ان کے خیالات اگر |
مجھ پہ الزام وہ دیں حاشیہ آرائی کا |
پھول مُرجھا گئے پتّے ہیں پڑے رستوں پہ اب |
کس کو فرصت ہے کہ سوچے چمن آرائی کا |
بعد مرنے کے تو دشمن بھی کہیں خیر کی بات |
مسئلہ ہوتا ہے بر وقت پذیرائی کا |
خود کو ظالم تُو سمجھتا نہیں پر سوچ ذرا |
اب تو جگ بھر میں ہے چرچا تری رسوائی کا |
زخم کھا کر چلے آئےوہ مداوا کرنے |
جانتے ہیں کسے دعوٰی ہے مسیحائی کا |
جانے کس بات پہ ہے ان کو توقّع اتنی |
چند گھڑیوں کا ہے یہ کھیل تماشائی کا |
طارق اب ذوقِ سماعت بھی کہا ں لوگوں میں |
شور لگنے لگا اب ساز بھی شہنائی کا |
معلومات