| بلاۓ غم سے لڑے کھاۓ ہیں بہت جھٹکے |
| تھی زندگی مرے آگے، کھڑا رہا ڈٹ کے |
| بتاہیں کیا تمہیں ایام کی روش کیا ہے |
| نگہ لگی رہے ہے چھت کو اور سانس اٹکے |
| جو تجھ سے نکلے ہی تھے، لے اڑی سہیلی تری |
| یوں آسماں سے گرے اور کھجور میں اٹکے |
| بھروسہ کرنا ہے گویا کمینے پن کی حد |
| کہ پھر پھڑکتا پھرے دل، دماغ کی سٹکے |
| ہمارے بخت ڈھلے تیری بے وفائی پر |
| ہم آدھے رہ گئے ہیں تیرے ہجر میں گھٹ کے |
| سو پھر یہ موڑ بھی آتا ہے اک فریب کے ساتھ |
| کسی کو کوئی ملے، کوئی پنکھے سے لٹکے |
| دماغ پر تھا کسی سوچ کا دباؤ زیبؔ |
| سکڑ گئیں سبھی شریانیں رنج سے پھٹ کے |
معلومات