بلاۓ غم سے لڑے کھاۓ ہیں بہت جھٹکے
تھی زندگی مرے آگے، کھڑا رہا ڈٹ کے
بتاہیں کیا تمہیں ایام کی روش کیا ہے
نگہ لگی رہے ہے چھت کو اور سانس اٹکے
جو تجھ سے نکلے ہی تھے، لے اڑی سہیلی تری
یوں آسماں سے گرے اور کھجور میں اٹکے
بھروسہ کرنا ہے گویا کمینے پن کی حد
کہ پھر پھڑکتا پھرے دل، دماغ کی سٹکے
ہمارے بخت ڈھلے تیری بے وفائی پر
ہم آدھے رہ گئے ہیں تیرے ہجر میں گھٹ کے
سو پھر یہ موڑ بھی آتا ہے اک فریب کے ساتھ
کسی کو کوئی ملے، کوئی پنکھے سے لٹکے
دماغ پر تھا کسی سوچ کا دباؤ زیبؔ
سکڑ گئیں سبھی شریانیں رنج سے پھٹ کے

0
87