85
دھندلا ہی گئی ہے ذات اپنی
کیسے ممکن غم سے نجات اپنی
آشیاں خالی ہی ملا مجھ کو
پھر سناتا کسے میں بات اپنی
زندگی سے سدا رہا شکوہ
نا مکمل ہے کائنات اپنی
تلخ لہجے بڑھتے گئے ان کے
مختصر نہ ہوئی یہ رات اپنی
یار کہتے تھے جو مجھے صاحب
ان ہی یاروں سے ہوئی مات اپنی
حکمِ سولی ہوا مرا صادر
بھولے منصف بھی التفات اپنی
عاضی قاتل مرا وہی نکلا
نام جس کے لکھی حیات اپنی
عاصم منیر عاضی

0
25