پل بھر میں ہیں چھانے والے
بامِ فلک پر روئی کے گالے
موسم نے ہے لی انگڑائی
شاید! ہیں یہ باراں لائے
سورج بھیّا پردہ نشیں ہے
کالی چادر تان کے لائے
چلتے ہیں یہ دھیرے دھیرے
جیسے مور کوئی دُم پھیلائے
دامنِ کوہ میں تھا یہ نظارہ
قدموں میں تھے جُھک جُھک آئے
ب سے بادل ، چِٹّا گورا
کچھ ہوتے ہیں کالے کالے
راج ہے اِن کا شاہوں جیسا
تازہ دم یہ ہو کر آئے
کرتے ہیں مسحور سبھی کو
ہر اِک اِن سے تسکیں پائے
جشن منانا ، گیت بھی گانا
ٹوٹ چکے ہیں غم کے تالے

0
46