یونہی خاموشیوں کی ادا کب تلک
یوں تماشائیوں کی صدا کب تلک
ہاتھ شمشیر سے ہیں تہی اور ہم
ہر گھڑی ہوں بدستِ دعا کب تلک
ظلم کی انتہا ہوگئی ہے یہاں
ظلم سہتے رہیں گے خدا کب تلک
کررہے ہیں ابھی اور کرتے رہیں
دینِ اسلام سے ہم جفا کب تلک
عزتوں کے لبادے کو ہم اوڑھ کر
ہم رہیں بے ادب بے حیا کب تلک
دامنِ عظمتِ مصطفی چاک ہے
ہم پہنتے رہیں گے قبا کب تلک
دہر میں چاک کرتے رہیں بد نہاد
آبروئے نبیِ خدا کب تلک
گلشنِ عشق ویراں رہے اور کیوں
کہہ رہے ہیں یہ اہلِ وفا کب تلک
ہم مسلمان ہیں ایک جاں ایک جسم
ایک دوجے سے ہوں پھر جدا کب تلک
چھوڑ کر اہلِ حق کی اداؤں کو ہم
اہلِ باطل پہ ہوں گے فدا کب تلک
حکمرانی ہماری روایات ہیں
ہاتھ میں لے کے بیٹھے گدا کب تلک
شاہی ؔ تو بھی تو ناداں نہیں اب رہے
غافلوں میں رہے خوامخواہ کب تلک ؔ

2
69
کب تلک

کب تلک