جس قدر ہے شوخی تجھ میں جس قدر گفتار ہے |
اس سے بڑھ کر تیری ہستی پیکرِ کردار ہے |
رشک تجھ پر آج بھی ہے اے "بہارستاں" کے پھول |
تیری خوشبو سے معطر اب تلک گلزار ہے |
ہے خزاں دیدہ تری ہستی کے بن باغِ بہار |
تجھ سے ہے حسنِ بہاراں شوخیٔ گلزار ہے |
حسنِ عالم تاب تیری دید کو بیتاب دل |
چشمِ مضطر جاں بلب ہے طالبِ دیدار ہے |
قوتِ فکر و عمل شیدا ترے کردار پر |
کاروانِ علم و عرفاں کا سپہ سالار ہے |
آشناۓ ملک و ملت اے سیاست آفریں |
حال و استقبال بیں تو ہر نفس بیدار ہے |
کیسے کیسے عزم کے پیکر کیے پیدا بِہار |
آج لیکن سرفروشوں سے پرے دربار ہے |
حسنِ کردار و عمل کا ایک بھی پیکر نہیں |
جانشینوں میں بھلے ہی جرأتِ گفتار ہے |
جام و مینا بہ گئے ہیں رند بھی بہکے گیے |
مے کدہ ویراں ہے ساقی خستہ دل مے خوار ہے |
ڈھونڈتا پھرتا ہوں ہردم تیرے نقشِ پا کو میں |
آج پھر سے دل کو میرے جستجوۓ یار ہے |
قوم و ملت کے محافظ پاسبانِ ملک و دیں |
ترے مقصد پر مری سو جان بھی ایثار ہے |
ہے مگر مجھ کو شکایت جانشینوں سے ترے |
ملک و ملت کا محافظ آج کیوں بیزار ہے |
بو المحاسن حضرتِ سجادؔ میرِ کارواں |
جس کے نقش پا پہ چل کر ذرہ بھی کہسار ہے |
وہ جنوں پرور جواں دل آج بھی ہے دہر میں |
خالدِؔ جانباز ہے یا حیدرِؔ کرار ہے |
دیدۂ دل وا کرے کوئی اگر تو دیکھ لے |
دستِ قدرت کا نمونہ شاہؔی بھی شہکار ہے |
معلومات