جس قدر ہے شوخی تجھ میں جس قدر گفتار ہے
اس سے بڑھ کر تیری ہستی پیکرِ کردار ہے
رشک تجھ پر آج بھی ہے اے "بہارستاں" کے پھول
تیری خوشبو سے معطر اب تلک گلزار ہے
ہے خزاں دیدہ تری ہستی کے بن باغِ بہار
تجھ سے ہے حسنِ بہاراں شوخیٔ گلزار ہے
حسنِ عالم تاب تیری دید کو بیتاب دل
چشمِ مضطر جاں بلب ہے طالبِ دیدار ہے
قوتِ فکر و عمل شیدا ترے کردار پر
کاروانِ علم و عرفاں کا سپہ سالار ہے
آشناۓ ملک و ملت اے سیاست آفریں
حال و استقبال بیں تو ہر نفس بیدار ہے
کیسے کیسے عزم کے پیکر کیے پیدا بِہار
آج لیکن سرفروشوں سے پرے دربار ہے
حسنِ کردار و عمل کا ایک بھی پیکر نہیں
جانشینوں میں بھلے ہی جرأتِ گفتار ہے
جام و مینا بہ گئے ہیں رند بھی بہکے گیے
مے کدہ ویراں ہے ساقی خستہ دل مے خوار ہے
ڈھونڈتا پھرتا ہوں ہردم تیرے نقشِ پا کو میں
آج پھر سے دل کو میرے جستجوۓ یار ہے
قوم و ملت کے محافظ پاسبانِ ملک و دیں
ترے مقصد پر مری سو جان بھی ایثار ہے
ہے مگر مجھ کو شکایت جانشینوں سے ترے
ملک و ملت کا محافظ آج کیوں بیزار ہے
بو المحاسن حضرتِ سجادؔ میرِ کارواں
جس کے نقش پا پہ چل کر ذرہ بھی کہسار ہے
وہ جنوں پرور جواں دل آج بھی ہے دہر میں
خالدِؔ جانباز ہے یا حیدرِؔ کرار ہے
دیدۂ دل وا کرے کوئی اگر تو دیکھ لے
دستِ قدرت کا نمونہ شاہؔی بھی شہکار ہے

1
96
. ابو المحاسن محمد سجادؒ
. طلباء ؀ بہار ؀کے ؀ نام
" ہے خزاں دیدہ تری ہستی کے بن باغِ بہار"

ابو المحاسن محمد سجادؒ تاریخ علمائے بہار و تاریخ علمائے ہند کی اس عظیم شخصیت کا نام ہے جنہیں سیاست آفریں
( one man politition, mastermind of jamiat ulama e hind )
کہا جاتا ہے جن کا یہ نظریہ تھا کہ علماء سیاست میں آکر بھی ملک و قوم کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں اور علماء ہی سیاست میں عظیم انقلاب لا سکتے ہیں
نا صرف یہ کہ وہ گفتار کے غازی تھے بلکہ انہوں نے حسن کردار اور اپنے انقلابی سرگرمیوں سے اپنے اس قول کی تصدیق بھی کی

چنانچہ وہ جمعیت علمائے ہند کے ان عظیم بانیوں میں سے ایک ہیں جن کی نظیر بزمِ کائنات میں نہیں ملتی

کانگریس اور مسلم لیگ کے نظریے کے خلاف مسلمانوں کی آزاد پارٹی " مسلم آزاد پارٹی" کو تشکیل دینے والے ایک عظیم لیڈر بھی ہیں

اور "جمیعت علمائے بہار " و "امارتِ شریعہ" کو قائم کرنے والے عظمتِ اسلام کے ایک عظیم پاسبان بھی ہیں تاہم وہ ایک متبحر عالم دین اور مدرسے کے ہی مدرس تھے
(وہ ہم ہی میں سے تھے)
مگر آج ان کے جانشیں حسن کردار سے عاری جراتِ گفتار کے پیکر باعثِ ننگ و عار ہوۓ جاتے ہیں سو آج شاہیؔ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ

کچھ بھی مشکل نہیں جہاں میں ان کے لئے
کرنے والے تو کر گزرتے ہیں
مگر یہ اہلِ شریعت جو ہیں بہانہ جو
سوچنے میں ہی عمریں گزار دیتے ہیں
ہاں ، بزمِ شاہؔی کے چند اہل جنوں
اب بھی دنیا کو زیر کرتے ہیں

. ابو المحاسن سجادؒ
. طلباء ؀ بہار ؀کے ؀ نام

جس قدر ہے شوخی تجھ میں جس قدر گفتار ہے
اس سے بڑھ کر تیری ہستی پیکرِ کردار ہے

رشک تجھ پر آج بھی ہے اے "بہارستاں" کے پھول
تیری خوشبو سے معطر اب تلک گلزار ہے

ہے خزاں دیدہ تری ہستی کے بن باغِ بہار
تجھ سے ہے حسنِ بہاراں شوخیٔ گلزار ہے

حسنِ عالم تاب تیری دید کو بیتاب دل
چشمِ مضطر جاں بلب ہے طالبِ دیدار ہے

قوتِ فکر و عمل شیدا ترے کردار پر
کاروانِ علم و عرفاں کا سپہ سالار ہے

آشناۓ ملک و ملت اے سیاست آفریں
حال و استقبال بیں تو ہر نفس بیدار ہے

کیسے کیسے عزم کے پیکر کیے پیدا بِہار
آج لیکن سرفروشوں سے پرے دربار ہے

حسنِ کردار و عمل کا ایک بھی پیکر نہیں
جانشینوں میں بھلے ہی جرأتِ گفتار ہے

جام و مینا بہ گئے ہیں رند بھی بہکے گیے
مے کدہ ویراں ہے ساقی خستہ دل مے خوار ہے

ڈھونڈتا پھرتا ہوں ہردم تیرے نقشِ پا کو میں
آج پھر سے دل کو میرے جستجوۓ یار ہے

قوم و ملت کے محافظ پاسبانِ ملک و دیں
ترے مقصد پر مری سو جان بھی ایثار ہے

ہے مگر مجھ کو شکایت جانشینوں سے ترے
ملک و ملت کا محافظ آج کیوں بیزار ہے

بو المحاسن حضرتِ سجادؔ میرِ کارواں
جس کے نقش پا پہ چل کر ذرہ بھی کہسار ہے

وہ جنوں پرور جواں دل آج بھی ہے دہر میں
خالدِؔ جانباز ہے یا حیدرِؔ کرار ہے

دیدۂ دل وا کرے کوئی اگر تو دیکھ لے
دستِ قدرت کا نمونہ شاہؔی بھی شہکار ہے

(شاہؔی تخیلات)
شاہؔی ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی

0