ناکامی کو یُوں زیست اچانک ہی نہیں دی
ہم نے بھی توجہ اسے اب تک ہی نہیں دی
خود اپنے ہی ہاتھوں سے انہیں قتل کیا ہے
خوابوں کو کہ حالات کی دیمک ہی نہیں دی
اک خوف نے مرنے نہ دیا میرا تذبذب
کھُل جاتا وہ در پر میں نے دستک ہی نہیں دی
بدلے جو محبت کے محبت کو خریدے
ہم نے تو محبت کو وہ گاہک ہی نہیں دی
دنیا کے حقائق تو اسے آئے تھے ملنے
اعجاز کے دل نے کبھی بیٹھک ہی نہیں دی

0
52