ناکامی کو یُوں زیست اچانک ہی نہیں دی |
ہم نے بھی توجہ اسے اب تک ہی نہیں دی |
خود اپنے ہی ہاتھوں سے انہیں قتل کیا ہے |
خوابوں کو کہ حالات کی دیمک ہی نہیں دی |
اک خوف نے مرنے نہ دیا میرا تذبذب |
کھُل جاتا وہ در پر میں نے دستک ہی نہیں دی |
بدلے جو محبت کے محبت کو خریدے |
ہم نے تو محبت کو وہ گاہک ہی نہیں دی |
دنیا کے حقائق تو اسے آئے تھے ملنے |
اعجاز کے دل نے کبھی بیٹھک ہی نہیں دی |
معلومات