دشت کی طرح کا،بہتے ہوے دھارے جیسا
کوئی تو شخص ملے ہم کو ہمارے جیسا
کون سہتا ہے کسی اور کی لہروں کے ستم
اتنا آساں تو نہیں ہونا کنارے جیسا
تم بھی جانو کہ محبت کی اذیت کیا ہے
کوئی تم کو بھی ملے کاش تمہارے جیسا
کوندے ڈوبتی کشتی کو سہارا دائم
یہ بھی ہر روز نئی آگ میں جل اٹھتا ہے
چاند کم بخت بھی نکلا تو ہمارے جیسا
ضبط کا تار کہاں ٹوٹ گیا پوچھیے مت
ہے مراحال بھی بس جیت کے ہارے جیسا
اس تجارت میں منافع ہی منافع ہے میاں!
عشق میں ہے ہی نہیں لفظ خسارے جیسا
کون دے ڈوبتی کشتی کو سہارا دائم ؟
ہر کسی میں تو نہیں ظرف کنارے جیسا

0
31