کچھ قیمتی نہ تھا دل سے سو اسے دیا |
کہہ کے عبث خدایا وہ ٹھکرا کیوں گیا |
ہوگا نہیں زباں سے گو حالِ دل بیاں |
اے اشکِ خوں تو ہی اس کو حالِ دل سنا |
اک پل کو آیا اور بے دیدار چل دیا |
وہ بے قرار یونہی دل میرا کر گیا |
آتے ہی میرے وہ یوں گم صم سا ہو گیا |
چاہت کا اس نے گویا اظہار کر دیا |
ممکن نہیں تھا حاصل کرنا تجھے اگر |
تو آ کے سامنے دل کو شیدا کیوں کیا |
پروا نہیں جو کرتے ، ان پر ترا کرم |
مرتے جو تجھ پہ ، ان پر کیوں کرتا ہے جفا |
مل ہی گیا وہ تجھ کو آخر اے دل مگر |
شوقِ وصال وہ کربِ ہجر تو گیا |
(زبیرعلی) |
معلومات