ہستی و نیستی کا سب ڈھب سمجھ گیا
اک روشنی نہیں تھی میں شب سمجھ گیا
دنیا فریب بھی فصلِ عاقبت بھی ہے
دو آیتوں کو جوڑا اور سب سمجھ گیا
تھی کچھ بنائے دنیا تو کچھ سمجھ گیا
انسان کو تراشا اور رب سمجھ گیا
جسکی نظر میں ہم بھی کافر ہیں دوستو
وہ منکرِ خدا ہے بس جب سمجھ گیا
یہ کوچہِ خرد ہے واعظ کا در نہیں
تو آئیو اس گھڑی جب مذہب سمجھ گیا
اشعار میں رضا نے منطق پرو دئیے
معنی کوئی تو کوئی مطلب سمجھ گیا
اسامہ رضا

0
63