روٹھ جائیں تو منانے نہیں آتا کوئی
بات سننے یا سنانے نہیں آتا کوئی
رات تاریک تھی اتنی کہ سَحَر ہو نہ سکی
ان اندھیروں کو مٹانے نہیں آتا کوئی
جب تلک چلتے رہے گرتے رہے اٹھتے رہے
وقت بدلا تو اٹھانے نہیں آتا کوئی
کیا عجب لوگ ہیں رشتوں میں دراڑیں ڈالیں
آگ بھڑکا کے بجھانے نہیں آتا کوئی
سارے کہتے ہیں کہ حاضر ہیں کوئی کام ہو گر
جب ضرورت ہو بچانے نہیں آتا کوئی
کم نگاہی نے بھلایا ہے مسلمان کو درس
تبھی بچھڑوں کو ملانے نہیں آتا کوئی
وہ بھی کیا دن تھے کہ ہر بات پہ مطعون رہے
اب تو باتیں بھی جتانے نہیں آتا کوئی
جشنِ مُطرب ہے مغنّی نے کہا تال ملا
بھوک کا جشن منانے نہیں آتا کوئی

0
65