ہر کوئی اپنی خودی کے نشّے میں مدہوش تھا |
ایسے میں مردِ خدا اک کب رہا خاموش تھا |
سچ کو سہنے کی نہیں عادت، یہ ہے رسمِ قدیم |
بول کر سولی پہ چڑھتا، کس کو اتنا ہوش تھا |
جس کو ساقی نے پلایا ، پی گیا الفت کا جام |
اُس کی محفل میں بلا کا ہر کوئی مے نوش تھا |
صاف دل رکھتا تھا جو، سُن کر اسے، اُس کا ہوا |
اس قدر تاثیر سے پُر نالۂ پُر جوش تھا |
اُس نے دے کر علم و عرفاں کی نظر، ظاہر کیا |
وہ خزانہ اب تلک دنیا سے جو رُو پوش تھا |
حیف ہے کرتے نہیں اب تک جو اُس کا اعتبار |
اُس نے جو سمجھا دیا کیا یہ بھی اُس کا دوش تھا |
جب کھڑا ہو کر پکارا اُس نے آؤ اس طرف |
فائدہ اُس کو ہوا جو بھی ہمہ تن گوش تھا |
ہم بھی عاشق ہو گئے طارق بزرگوں کے طفیل |
ورنہ حق کی جستجو میں کون لذّت کوش تھا |
معلومات