کس کے جلوے میں مگن ہے یہ نظارہ کیا ہے |
دیدۂ کور کو حیرت زدہ تکتا کیا ہے |
ان کے دربار میں بٹتی ہے جہاں کی دولت |
تو عجب ہے کہ مجھے پوچھتا ملتا کیا ہے |
میں نے مانا کہ گناہوں سے بھرا ہوں لیکن |
ان کی رحمت کا ہوں حقدار تو سمجھا کیا ہے |
بخش دے مجھ کو خطاکار ہوں مولا میرے |
یوں گنہگار کو اب اور لجانا کیا ہے |
حشر میں آپ کو دیکھا تو گناہوں نے کہا |
دیکھو تو صاحبِ بخشش کا یہ آنا کیا ہے |
حشر میں مجھ کو بچائے گے شفاعت کر کے |
میرے آقا کی شفاعت کا وہ رتبہ کیا ہے |
ہے شرف مجھ کو عطا یہ کہ ہوا ہوں ان کا |
آتشِ نار میں اب میرا ٹھکانہ کیا ہے |
پھر سے ہے آرزو میں دیکھوں تمھارا روضہ |
اپنے منگتے کو اب اور رلانا کیا ہے |
دل کی دنیا کو مسرت سے جگا دو اب تو |
قلبِ مضطر کا ترے در پہ پُکارا کیا ہے |
پلے اعمال نہیں پیش کروں کیا ان کو |
دیکھو بدکار کو یہ ان کا بلانا کیا ہے |
اب مجھے دامنِ اقدس میں چُھپا لو آقا |
بحرِ ظلمات کا دیکھو، یہ تماشا کیا ہے |
نورِ احمد رضا پر ایک نظر فرمائے |
اس کی بگڑی کو بنانے میں یہ وقفہ کیا ہے |
30 رمضان المبارک 1445 ھ |
10 اپریل 2024 |
معلومات