ہنر سے ہی پہچانتا ہے زمانہ
بنے کیسے ہر کوئی پھر جو دِوانہ
بسی رہتی ہیں دیرپا شیریں یادیں
ہو اعصاب پر حاوی ان کا ترانہ
تراشے سلیقہ سے ہیرا تو ممکن
وہی تاج سے منسلک ہو نگینہ
ہمیشہ کریں فکر آگے کی لازم
نہ بھولیں کبھی ماضی کا پر فسانہ
مگن نو جوانان تعلیم میں ہوں
یہی ہے ترقی کا واحد خزانہ
گناہوں کی بخشش کا ساماں ہو پیدا
کہ بس مغفرت ڈھونڈتی ہے بہانہ
ادا ہو زباں سے شہادت کا کلمہ
تو ناصؔر رہیگا جنت ہی ٹھکانہ

0
47