| تمناء حیات مرس رہی ہے |
| تم سے ملنے کو ترس رہی ہے |
| ِمرا حال اب مخفی نا رہے گا |
| خاموشی مجھ کو جرس رہی ہے |
| رنجیدہ دل بھی چھید ہوا |
| اب یاد رگوں میں رس رہی ہے |
| یہ آنکھ بھی خشک ہو جانے کو ہے |
| رم جھم رم جھم جو برس رہی ہے |
| جلاتے تھے شمع اندھیروں میں |
| رحمت یہ بھی تو صفتِ فرس رہی ہے |
معلومات