تمناء حیات مرس رہی ہے
تم سے ملنے کو ترس رہی ہے
ِمرا حال اب مخفی نا رہے گا
خاموشی مجھ کو جرس رہی ہے
رنجیدہ دل بھی چھید ہوا
اب یاد رگوں میں رس رہی ہے
یہ آنکھ بھی خشک ہو جانے کو ہے
رم جھم رم جھم جو برس رہی ہے
جلاتے تھے شمع اندھیروں میں
رحمت یہ بھی تو صفتِ فرس رہی ہے

0
139