سخن ورو! |
لفظوں کی گتھیاں سلجھانے والو |
رنگینیٔ خیال کو کاغذ پہ لانے والو |
ہر تخیل کو بڑا ناپ تول کرتے ہو |
حرف حرف کی زمیں سے گزرتے ہو |
ذرا اپنے فن کو آواز دو |
اپنے ترازو سب لے کر آؤ |
ان لفظوں کا وزن کر دو |
جو روح کو گھائل کرتے ہیں |
ان لہجوں کی بحر بتا دو |
جن کے زخم کبھی بھرتے نہیں |
مگر |
اے سخن ورو! جانتے ہو ناں |
تمہارا فن ایسا کرنے سے عاجز ہے |
معلومات