خواہشِ نفس کے شعلوں کو دبا رکھا ہے |
آتشِ عشق کو ہم نے بھی جلا رکھا ہے |
شہر کے شہر نے دستانے پہن رکھے ہیں |
ڈر سے قاتل کے ،نقاب اپنا چڑھا رکھا ہے |
آبِ زمزم سے جو کعبے کی صفائی کی ہے |
اُس نے مہمانوں کے آنے کا بتا رکھا ہے |
آرزو دید کی ، حسرت نہ کہیں بن جائے |
میں نے خوابوں میں بھی آنکھوں کو کھلا رکھا ہے |
کُشتۂ شوق ہوں ، جینے کے تو آثار نہیں |
میں نے بس سانس کو سینے سے لگا رکھا ہے |
آبلہ پا ہوں مگر ، اُس کے لئے چلتا ہوں |
ہمسفر جس کی محبّت کو بنا رکھا ہے |
میں تو انجانے میں شاید کہیں لایا تھا اسے |
اُس نے وہ پھول کتابوں میں چھپا رکھا ہے |
اُس نے لکھ کر جو دیا تھا مجھے برسوں پہلے |
میں نے سنبھال کے اب تک وہ پتا رکھا ہے |
طارق اس کو بھی تو چاہت ہے مجھے ملنے کی |
اجر اس نے بھی محبّت کا لقا رکھا ہے |
معلومات