خواہشِ نفس کے شعلوں کو دبا رکھا ہے
آتشِ عشق کو ہم نے بھی جلا رکھا ہے
شہر کے شہر نے دستانے پہن رکھے ہیں
ڈر سے قاتل کے ،نقاب اپنا چڑھا رکھا ہے
آبِ زمزم سے جو کعبے کی صفائی کی ہے
اُس نے مہمانوں کے آنے کا بتا رکھا ہے
آرزو دید کی ، حسرت نہ کہیں بن جائے
میں نے خوابوں میں بھی آنکھوں کو کھلا رکھا ہے
کُشتۂ شوق ہوں ، جینے کے تو آثار نہیں
میں نے بس سانس کو سینے سے لگا رکھا ہے
آبلہ پا ہوں مگر ، اُس کے لئے چلتا ہوں
ہمسفر جس کی محبّت کو بنا رکھا ہے
میں تو انجانے میں شاید کہیں لایا تھا اسے
اُس نے وہ پھول کتابوں میں چھپا رکھا ہے
اُس نے لکھ کر جو دیا تھا مجھے برسوں پہلے
میں نے سنبھال کے اب تک وہ پتا رکھا ہے
طارق اس کو بھی تو چاہت ہے مجھے ملنے کی
اجر اس نے بھی محبّت کا لقا رکھا ہے

1
188
پسندیدگی کا بہت شکریہ حمید اللہ ماہر صاحب

0