بدلے بدلے سے جو افکار نظر آتے ہیں
لوگ اکثر ہی سیہ کار نظر آتے ہیں
قحط لوگوں کا پڑا اتنا ہے چاروں جانب
چور ڈاکو بنے سر کار نظر آتے ہیں
وہ جو ہنس ہنس کے ملا کرتے ہیں وہ بھی تو ہمیں
کینہ پرور پسِ دیوار نظر آتے ہیں
ہیں خرد مند جو سچ بولنے والے اکثر
جیل میں ہیں یا وہ بیکار نظر آتے ہیں
وہ جنہیں گھر کے سمجھتے تھے ہیں معمار یہی
بیچنے کو اسے تیّار نظر آتے ہیں
جھوٹ غالب ہے کہ انصاف کا ہے خون ہوا
وہ مجھے بر سرِ پیکار نظر آتے ہیں
ہو گئے گھر پہ مسلّط ہیں محافظ گھر کے
چار جانب یہ جو مکّار نظر آتے ہیں
جس کی بنیاد میں ہیں دفن ہزاروں وہ گھر
ٹوٹ جانے کے اب آثار نظر آتے ہیں
آپ کہتے ہو مسیحا کی ضرورت ہی نہیں
مانتے ہو یہاں بیمار نظر آتے ہیں
طارق اب وقت تو ہے آنکھیں کھلیں لوگوں کی
بیٹھے منبر پہ جو فُجّار نظر آتے ہیں

0
23