بڑی زحمتیں ہیں اٹھائیں پھر بھی زباں پہ شکوہ نہیں رہا |
کہیں لعن، طنز و مزاح، معترضہ بھی فقرہ نہیں رہا |
بسی آرزو کئی عرصہ سے تھی کہ مطمئن ہو مگر کہاں |
جسے جانے دیدنی ہم تھے اس میں ابھی وہ جلوہ نہیں رہا |
بے رخی سے بچتے رہیں تو ساحِلِ آشنا ہو سکیں گے پر |
یہ خیال خطرہ کی ہے نشانی کہ ہم کو خطرہ نہیں رہا |
نہ ہو انتظار کبھی وقار کے خود بخود ہی پنپنے کا |
جو پڑا رہا بے خبر ہو پھر اُسے کوئی عہدہ نہیں رہا |
ہیں نماز، روزہ سے ناصؔر اب ہو چکیں بے بہرہ سبھی یہاں |
کہ بے حد ذریعہ وسیلے رہتے ہمارا شیوہ نہیں رہا |
معلومات