بڑی زحمتیں ہیں اٹھائیں پھر بھی زباں پہ شکوہ نہیں رہا
کہیں لعن، طنز و مزاح، معترضہ بھی فقرہ نہیں رہا
بسی آرزو کئی عرصہ سے تھی کہ مطمئن ہو مگر کہاں
جسے جانے دیدنی ہم تھے اس میں ابھی وہ جلوہ نہیں رہا
بے رخی سے بچتے رہیں تو ساحِلِ آشنا ہو سکیں گے پر
یہ خیال خطرہ کی ہے نشانی کہ ہم کو خطرہ نہیں رہا
نہ ہو انتظار کبھی وقار کے خود بخود ہی پنپنے کا
جو پڑا رہا بے خبر ہو پھر اُسے کوئی عہدہ نہیں رہا
ہیں نماز، روزہ سے ناصؔر اب ہو چکیں بے بہرہ سبھی یہاں
کہ بے حد ذریعہ وسیلے رہتے ہمارا شیوہ نہیں رہا

0
65