کچھ خواب خریدے تھے آنکھوں کی تجارت سے
محروم ہوئے لیکن یوسف کی زیارت سے
دشوار تو ہوتا ہے لفظوں میں بیاں کرنا
پڑھ لیتے ہیں لوگوں کو چہروں کی عبارت سے
پہلا سا طبیعت میں ہیجان نہیں باقی
جذبات پگھلتے تھے سانسوں کی حرارت سے
سپنوں میں کبھی آ کر وہ پیار سے دیکھے ہے
سمجھائے یہ کون اس کو باز آئے شرارت سے
الجھی ہوئی زلفوں کے بل دیکھ کے سُلجھا دیں
سمجھا کے رکھیں خود کو ڈرتے ہیں جسارت سے
کہہ دیں جو نہیں اچھا غیروں سے ملا کرنا
محفل سے اٹھاتا ہے ہم کو ہی مہارت سے
الزامِ محبّت میں گر جُرم ہوا ثابت
کیوں دیکھے کوئی ہم کو اس طرح حقارت سے
غالب ہے جنوں آخر کیوں عقل وخرد
ہوتا ہے جو عشق اندھا دیکھے وہ بصارت سے
ہو جائے سفر مشکل گر دیتا ہے زادِ راہ
مایوس نہیں کرتا خوش کر دے بشارت سے
ظاہر کے لباسوں پر کب اس کی نظر طارق
نزدیک وہ آنے دے بس دل کی طہارت سے

0
3