وہ نام مجھکو مناجات میں دیا گیا ہے
وہ جسکا ذکر حوالات میں دیا گیا ہے
یہ بانٹنے سے بھی لگتا ہے کم نہیں ہو گا
کہ مجھکو درد بھی بُہتاب میں دیا گیا ہے
میں کسطرح سے اُسے چھین لوں زمانے سے
مجھے وجودبھی خیرات میں دیا گیا ہے
پِلا رہا تھا سبھی کو میں جام الفت کا
یہ زہر مجھ کو مَکافات میں دیا گیا ہے
مرا مُعاش کے چکر میں دن گزرتا ہے
غزل کا وقت مجھے رات میں دیا گیا ہے
مجھے گمان ہے روزِ ازل سے ہی اعجاز
کسی کا ہاتھ مرے ہاتھ میں دیا گیا ہے
اعجاز احمد روانہ

0
96