فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن |
نفرتیں سب زمانے کی سہتا رہا |
درسِ الفت ہی پھر بھی میں دیتا رہا |
---------- |
ہم کو شیطان کھینچے گا اپنی طرف |
بچ کے چلنا یہاں سب سے کہتا رہا |
---------- |
جانتا تھا کہ منزل بہت دور ہے |
پھر بھی جانب اسی کی میں چلتا رہا |
-------------- |
مجھ پہ میرے خدا کا کرم تھا بہت |
کام بگھرا نہیں میرا بنتا رہا |
------------- |
بے حسی ہر جگہ پر ہے چھائی ہوئی |
خونِ ناحق زمانے میں بہتا رہا |
--------- |
مشکلیں تھیں بہت پھر بھی ہارا نہیں |
سوئے منزل ہمیشہ ہی بڑھتا رہا |
----------- |
جو دیا چاہتوں کا جلاتے رہے |
بعد تیرے بھی جانے کے جلتا رہا |
------------- |
داغ ارشد کی چادر پہ لگتے رہے |
وہ انہیں خون اپنے سے دھوتا رہا |
-------- |
معلومات