الزام آپ ہم نے ہی ، پھر اپنے سر لیا
انصاف کا مطالبہ ہم نے نہیں کیا
اس کو گماں نہ ہو کہیں بھولے ہیں ہم اسے
دامن ہوا تھا چاک جو اب تک نہیں سیا
کچھ عدل کی امید رکھی ہی نہ تھی کبھی
سُقراط نے بھی زہر کہاں شوق سے پیا
تاریک شب میں آسرا بھٹکے ہوؤں کا ہو
ہم نے تو جھونپڑی میں جلا کر رکھا دیا
فرقت میں اپنے آپ ہی کو کوستے رہے
کہتے یہ کیسے بِن ترے لگتا نہیں جیا
چھوڑا نہیں ہے ، دُور تو دو چار دن ہوا
اس نے ، مجھے یقین ہے ، دھوکہ نہیں دیا
طارقؔ فراق ، وصل سے پہلے ضرور ہے
جب تک نہ امتحان ہو ، راضی نہ ہو پیا

0
7