ہر دان ہے ذیشان سے کشکولِ دہر میں |
ہے فیض اسی دان کا دامان سحر میں |
جو نور حسیں ذات سے ہستی کا ہے مطلع |
ہے رنگ اسی نور سے کونین نگر میں |
تابانی ہے جس نور سے کونین میں پھیلی |
یزداں کا وہ نور ہے پوشاکِ بشر میں |
اور لطف اسی ذات سے ہر خُلق کو آیا |
یہ دیکھے نظر والا طائف کے سفر میں |
ممنون اسی داتا کے دارین بنے ہیں |
احوال بھی ہر آن کے ہیں جن کی نظر میں |
دنیا تیری راہ کی منزل ہی کہاں ہے |
لے آئی تو انساں کو بھی گہرے بھنور میں |
محمود اثاثہ تیرا یادِ نبی ہے |
یہ فیض ملا تجھ کو ہادی کے حصر میں |
معلومات