ہر دان ہے ذیشان سے کشکولِ دہر میں
ہے فیض اسی دان کا دامان سحر میں
جو نور حسیں ذات سے ہستی کا ہے مطلع
ہے رنگ اسی نور سے کونین نگر میں
تابانی ہے جس نور سے کونین میں پھیلی
یزداں کا وہ نور ہے پوشاکِ بشر میں
اور لطف اسی ذات سے ہر خُلق کو آیا
یہ دیکھے نظر والا طائف کے سفر میں
ممنون اسی داتا کے دارین بنے ہیں
احوال بھی ہر آن کے ہیں جن کی نظر میں
دنیا تیری راہ کی منزل ہی کہاں ہے
لے آئی تو انساں کو بھی گہرے بھنور میں
محمود اثاثہ تیرا یادِ نبی ہے
یہ فیض ملا تجھ کو ہادی کے حصر میں

59