عظمتِ بنتِ اسدؑ کعبے میں جو در نکلا
ذاتِ اکبر کا وہ گھر مسکنِ حیدرؑ نکلا
خانۂ کعبہ میں کہتے ہوئے گرتے ہیں صنم
دیکھو وہ تیغ لئے حیدرِؑ صفدر نکلا
اپنے چکر کو تُو کہتا ہے طوافِ کعبہ
در حقیقت تیری تقدیر کا چکر نکلا
درِحیدرؑسے الگ ڈھونڈتے ہیں علم کا در
جاہلوں کا ہے زمانے میں سمندر نکلا
مسندِ احمدِ مرسلﷺ پہ جو بیٹھا غاصب
ذلتیں اس کو ملیں کیسا مقدر نکلا
بخششیں اس کا مقدر ہیں بنیں عالم میں
جو درِ آلِ پیمبرﷺ کا گدا گر نکلا
رکھ دی جب اپنی جبیں شاہِؑ ہدا کے در پر
یہ تو صائب کا عمل سب سے ہی بہتر نکلا

0
7