سانحہ دل ہلا کے گزرا ہے
میرا سب کچھ اُڑا کے گزرا ہے
تیرے سائے میں کوئی بیٹھ گیا
شکر کیا ، کہلوا کے گزرا ہے
سوچ گہری میں جاؤں تو کہہ دوں
جو بھی آیا بتا کے گزرا ہے
بات اس سے ہوئی تھی دل کی پر
آنکھیں بھی وہ چُرا کے گزرا ہے
گھر تو بستے ہیں دل کے رشتے سے
قصر دل کا وہ ڈھا کے گزرا ہے
کام آئے اگر مری ہستی
لوگ کہہ دیں کما کے گزرا ہے
روک دیتے ہیں ہم نہتّوں کو
جو مسلّح تھا آ کے گزرا ہے
صرف کندھے سے کندھا ٹکرایا
دھونس ہم پہ جما کے گزرا ہے
تم ہو جو بات سن نہیں سکتے
بات طارقؔ سُنا کے گزرا ہے

0
14