| خود سے بھی اب تو بدگماں ہوگی |
| کتنی بےزار وہ وہاں ہوگی |
| اپنی ہستی سے ہو کے وہ بیزار |
| گم کسی اور ہی جہاں ہوگی |
| خود کو کر کے فنا مرے اندر |
| اب وہ شاید کہیں نہاں ہوگی |
| گم ہے اب خود میں ہی یہ دیوانہ |
| جانے اس وقت وہ کہاں ہوگی |
| دور جا کر بھی، یہ یقیں ہے مجھے |
| وہ فقط میرا ہی گماں ہوگی |
| ایک محرومی، ایک ویرانی |
| میری آنکھوں کی ترجماں ہوگی |
| کتنے چہروں کے بیچ گم ہوں میں |
| وہ بھی تنہا کسی جہاں ہوگی |
| وقت اک لمحہ ہے، مگر اُس میں |
| زندگی جیسے بے اماں ہوگی |
| میرے دل کے خراب کوچے میں |
| اب وہ شاید ہی مہرباں ہوگی |
| کیا خبر تھی کہ زندگی مری۔۔اک |
| آس کے ہاتھوں رائیگاں ہوگی |
| ہم جب اے جانِ جاں ملیں گے کبھی |
| کیا جدائی بھی درمیاں ہوگی |
| داستانِ سراب تھی ہی نہیں |
| داستاں پھر کیسے بیاں ہوگی |
| راتیں باہر گزارنے سے یوں |
| بس پریشان میری ماں ہوگی |
معلومات