اس گلی میں |
جہاں دھول اڑتی ہے |
ہوا کے نرم جھونکے |
دیواروں کو چھو کر |
کبھی رک جاتے ہیں، کبھی گزر جاتے ہیں |
پرانے دروازے |
اپنی خاموش زبان میں |
صدیوں کا قصہ سناتے ہیں |
اینٹوں میں چپکی کہانیاں |
وہ خون سے لکھے ہوئے نعرے |
چیخ چیخ کر کچھ کہتے ہیں |
کسی خواب جیسی کہانیاں |
جو کبھی جاگتے جاگتے دیکھے تھے |
اور کبھی بھولے سے یاد آئے |
اس گلی کے موڑ پر |
اک چنار کا درخت |
جھکے ہوئے سائے میں |
بچپن کے قہقہے گونجتے ہیں |
وہ چپکے چپکے باتیں |
جن کی کوئی خبر نہ تھی |
آج بھی دیواروں پر لکھی ہیں |
کسی ان کہی محبت کی طرح |
جو دلوں میں دفن ہو کر بھی |
فضا میں بکھر جاتی ہے |
کبھی کوئی پرانا چہرہ |
یادوں کی گرد جھاڑ کر |
گزر جاتا ہے |
اور گلی میں ایک پل کو |
پھر وہی پرانی رونق لوٹ آتی ہے |
مگر بس ایک پل کے لیے |
پھر وہ چہرہ بھی |
وقت کے دھند میں گم ہو جاتا ہے |
اور گلی پھر ویسی ہی ویران |
اور خاموش ہو جاتی ہے |
یہاں وقت تھم جاتا ہے |
لیکن قدموں کے نشان |
اب بھی موجود ہیں |
جو کہانیوں کو باندھے رکھتے ہیں |
ایک دور کی مٹی میں |
جہاں ہر پتھر |
ہر درخت |
ہر دروازہ |
ایک راز چھپائے ہوئے ہے |
جو کبھی سننے والے کانوں تک نہیں پہنچتا |
اس گلی کے فسانے |
کبھی ختم نہیں ہوتے |
وہ چلتے رہتے ہیں |
وقت کی پرانی گزرگاہوں میں |
بےآواز، بےنشان |
معلومات