وہ خواب جو آنکھوں میں بسا بیٹھا ہوں میں
کیا کہوں کس حال میں جا بیٹھا ہوں میں
بارشیں رُکتی نہیں دل کے نگر میں آج تک
جانے کیوں اک اشک سا بہا بیٹھا ہوں میں
چاندنی میں اُس کی یادوں کا سفر باقی رہا
راہ میں کِتنے دیے جلا بیٹھا ہوں میں
پھول دل کے مرجھنے لگتے ہیں خاموشی میں
اُن کے وعدوں پر بھروسا کھا بیٹھا ہوں میں
وقت رُک سا گیا جب وہ مسکرائی کہیں
یاد کر کے آج پھر ہنسا بیٹھا ہوں میں
یہ محبت بھی عجب سود و زیاں نکلی آخر
دل تو اُس کے نام پر لُٹا بیٹھا ہوں میں
اور آخر میں یہی لکھ دو کتابِ عشق پر
نام اُس کا… اور دستخط ندیم کا ہوں میں

0
5