ہجر کی آتش کو جھرنا چاہیے
آج بارش کو برسنا چاہیے
اس محبت کے سمندر میں ہمیں
ڈوب کے پھر سے ابھرنا چاہیے
الفتیں بھی ہیں ضروری زندگی
تیر اک دل میں اترنا چاہیے
یار سے کر کے اقرار دیکھ پھر
بات سچ سے کیا مکرنا چاہیے
روشنی گو کم ہے جگنو کی مگر
کام حصے کا تو کرنا چاہیے
جان جائے یا بچے اس میں کوئی
عشق ہر حد سے گزرنا چاہیے
پیار نے ہم کو سکھایا ہے یہی
جینا شاہد اس میں مرنا چاہیے

0
70