یوں فیض عام بخشا، خیر الانام نے |
دیکھا فروزاں دن کو، ہستی تمام نے |
واحد ہے ذاتِ باری، جو بے نیاز ہے |
واضع کیا یہ نقطہ، اُن کے پیام نے |
سرمایہ زندگی میں، یادِ نبی بنی |
اس کو مگر سجایا، اُن پر سلام نے |
مومن یہ زندگی ہے، سرکار کے لئے |
کربل میں جو سکھایا، ہم کو امام نے |
شایانِ آستانہ، آہ و فغاں نہیں |
آنسو مگر ہے پالا، اس احترام نے |
رکھتے ہیں ہر خبر کو، اُن کے اسیر سن |
فرماں دیا اے ساریہ، کِن کے غلام نے |
صدیق کا جو ثابت معراج سے ہے نام |
کیسا دیا یقیں ہے، الفت کے جام نے |
ہستی میں آگہی اور قُل کا ہے راز جو |
مصددق سے سنا یہ، ہر خاص و عام نے |
ہے قافلہ دہر کا نورِ حبیب سے |
یہ فیصلے کئے ہیں مختارِ تام نے |
قیمت جہانِ ہستی، قادر کو کاہِ راہ |
لیکن اسے قدر دی، آقا کے نام نے |
محمود کیا یہ کم ہیں، الطاف مصطفیٰ |
جملہ خلق نوازی، ماہِ تمام نے |
معلومات