انہی کا صدقہ میں کھا رہا ہوں |
انہی سے دل کو لگا رہا ہوں |
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں |
انہی سے غم کو مٹا رہا ہوں |
انہی کے قدموں میں جی رہا ہوں |
انہی کے قدموں میں مر رہا ہوں |
انہی کی محفل سنوارتا ہوں |
انہی کی باتیں سنا رہا ہوں |
انہی کے در پر قرار میرا |
انہی سے عز و وقار میرا |
انہی کے صدقے لٹا رہا ہوں |
انہی پہ خود کو مٹا رہا ہوں |
ہے لگتا مجھ کو بُلا رہے وہ |
ہاں جیسے مجھ کو چھپا رہے وہ |
میں اٹھ کے اب چلنے لگ پڑا ہوں |
اب ان کے در پر میں جا رہا ہوں |
دلِ گدا کی مراد دے دے |
وہ اب تو مجھ کو وصال دے دے |
میں ان کے قدموں سے آ لگا ہوں |
ہاں لوگوں کو میں بُھلا رہا ہوں |
میں ان کے گل کا ہوں خار لیکن |
میں ان کے در کا گدا ہوں لیکن |
حبیب ان کو میں مانتا ہوں |
کہ دل میں ان کو بسا رہا ہوں |
ہے نور ان کا غلام تُو بھی |
ہے کرتے تجھ سے کلام وہ بھی |
عجب ہے رازوں کو کھولتا ہوں |
محبت ان کی بتا رہا ہوں |
23 جمادی الاول 1444ھ |
18 دسمبر 2022 |
معلومات