ولادت ہے بیٹی کی رحمت خدا کی
ہمیں چاند سی اک کلی پھر عطا کی
اُسی کا کرم ہے جو پوری دُعا کی
اُسی نے ہمارے دُکھوں کی دوا کی
یہ بیٹی تو سب کی ہے آنکھوں کا تارا
بنے زندگی میں سبھی کا سہارا
یقیناً ہے بیٹوں کی نعمت بھی عالی
نرینہ ہو اولاد سب ہیں سُوالی
مگر بیٹیوں کی ہے اُلفت مِثالی
بِنا ان کے دل کا تو آنگن ہے خالی
جو محروم ہیں بیٹیوں سے خُدایا
تُو کر اپنی رحمت کا اُن پر بھی سایہ
فلک نے تو دیکھا وہ دورِ جہالت
مقدر میں بیٹی کے بس تھی حقارت
کہیں دفن ہوتی بَوقتِ وِلادت
کہیں پر بنی تھی یہ مالِ تجارت
ہزاروں بَرَس تک سزا اِس نے کاٹی
بتائے تو کوئی خطا اس کی کیا تھی؟
تمھیں میری بیٹی سنبھالا تھا کس نے؟
اَسِیری سے تُم کو نکالا تھا کس نے؟
اندھیرے کو بخشا اُجالا تھا کس نے؟
دلوں میں محبت کو ڈالا تھا کس نے؟
دِیا دینِ اسلام نے تم کو رُتبہ
تِری پروَرِش پر ہے جَنّت کا مُژدہ
بَھنوَر خواہشوں کا وہ رستے کی پِھسلن
تِری تاک میں ہر قدم پر ہیں رَہزَن
کہیں جل نہ جائے یہ دل کا نشیمن
ہمیشہ رہے پاک تیرا یہ دامن
کبھی جال میں دُشمنوں کے نہ آنا
تو ہر آن ایمان اپنا بچانا
لُبھاتی ہے مغرِب کی روشن خیالی
بظاہر حَسیں ہے حقیقت میں کالی
یہ بیزار دیں سے اَدَب سے بھی خالی
یہاں حُسنِ ظاہر نے محفل سجالی
خیالوں پہ ان کے ہے شیطاں کا قبضہ
ہے پیوست دل میں بھی شہوت کا پنجہ
میں خواہش کے پیچھے تو ہردم چلوں گی
اِسی میں جِئوں گی اِسی میں مَروں گی
مِرا جسم میری جو مرضی کروں گی
بغاوت کا ڈنکا بجاتی رہوں گی
ہو خواہش کی تُم کو غُلامی مبارک
جَہَنَّم میں جلنا دوامی مبارک
پڑی کتنی مُشکل میں مغرِب کی بیٹی
لگی آگ اُجڑی ہے جیون کی کھیتی
غموں کے یہ کانٹوں پہ ہر دم ہے لیٹی
یہ پیغام عبرت کا سب کو ہے دیتی
رَوِش پر مِری تم کبھی بھی نہ چلنا
مُقَدَّر میں ورنہ تمہارے ہے جلنا
خُدا کی اِطاعت کو مقصد بنا لو
نبی کی محبت کو دل میں بسا لو
نگاہوں پہ چادر حیا کی سجا لو
شریعت کو تم اپنا محور بنا لو
اِسی میں چُھپی ہے ہر اک کامیابی
اِسی سے ملے تم کو جَنّت کی چابی
مُسَدَّس میں میری فقط ہے حقیقت
کریں بیٹیاں اس سے حاصل نصیحت
خدایا عطا کر سبھی کو بصیرت
یہ خاتونِ جنَّت کی اپنائیں سیرت
مِلے اجر زیرکؔ کو دونوں جہاں میں
عطا کر دے تاثیر اِس کے بَیاں میں

41