ہمارے دیدۂِ نم سے جو اشکِ غم ٹپکتے ہیں |
یہ موتی بنتے ہیں رومالِ زہرا میں چمکتے ہیں |
غمِ دنیا میں کب آنکھوں سے یہ باہر نکلتے ہیں |
مگر سن لیتے ہیں جب نامِ سرورؑ تو مچلتے ہیں |
صدائیں لاکھ دیں دنیا کے رنج و غم اِنہیں لیکن |
غمِ شبیرؑ کی آہٹ پہ ہی باہر نکلتے ہیں |
ہمارے داغِ ماتم اور غمِ شبیرؑ کے آنسو |
یہی جگنو کی صورت قبر کے اندر چمکتے ہیں |
وہ جو بدعت سمجھتے ہیں غمِ شبیرؑ میں رونا |
وہی خوشیوں کی خاطر عمر بھر اپنی ترستے ہیں |
نہیں ہو آنکھ میں جن کی حیا اور شرم کا پانی |
انہیں لوگوں کی آنکھوں میں یہ اشکِ غم کھٹکتے ہیں |
فضائل سن کے حیدرؑ کے منافق تم پہ کیا گزری |
تمہارے دل کی حالت کو ہمیں بہتر سمجھتے ہیں |
حوادث میں کہاں یہ دم کہ ہم سے آکے ٹکرائیں |
علیؑ کا نام سن کر حادثوں کے دم نکلتے ہیں |
کدھر جاتے ہو جنت ڈھونڈنے والو اِدھر آؤ |
یہاں بہلول بیٹھے ہیں، جناں تقسیم کرتے ہیں |
ہمارا قول ہے یکساں ہو تحریری کہ تقریری |
جو لکھتے ہیں وہ کہتے ہیں جو کہتے ہیں وہ لکھتے ہیں |
معلومات