صنم بے وفا وہ بنے بیٹھے ہیں
مجسم خطا وہ بنے بیٹھے ہیں
بظاہر نظر آتے ہیں کچھ مگر
"زمیں پر خدا وہ بنے بیٹھے ہیں"
نہ اقرار کرتے نہ انکار بھی
سراپا حیا وہ بنے بیٹھے ہیں
حوادث سے ڈر اور ہمت بھی پست
پہ موجِ انا وہ بنے بیٹھے ہیں
نگاہِ تغافل رہا ہے سبب
صدائے گلہ وہ بنے بیٹھے ہیں
کہ ترکِ تعلق کا ہو قصد بھی
مگر ہم نوا وہ بنے بیٹھے ہیں
یہ اسلوب ناصؔر ہے کس کی عطا
نگارش، ادا وہ بنے بیٹھے ہیں

0
43